Duration 4:9

میراث میں بیٹی بہن کا حصہ اور ہماری غفلت ظلم زیادتی

394 watched
0
12
Published 20 Sep 2021

 (1)میراث میں بہنوں کو شرعی حصہ سے محروم رکھنا اور بھائیوں کا سارے مال پر قبضہ کرلینا شدید حرام اور کبیرہ گناہ  ہے ۔      میراث کے متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ﴿یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین﴾ترجمہ کنزالایمان: اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے۔(پارہ4،سورۃالنساء،آیت11)      کسی وارث کی میراث نہ دینے سے متعلق حدیث پاک میں ہے : ”قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من فر من ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو اپنے وارث کو میراث دینے سے بھاگے ، اللہ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث قطع فرما دے گا۔    میراث میں بہنوں کو حصہ نہ دینے کے متعلق مفتی حضرات ارشاد فرماتے ہیں :”لڑکیوں کو حصہ نہ دینا حرامِ قطعی ہے اور قرآن مجید کی صریح مخالفت ہے ۔ قال اللہ تعالی ﴿ یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین ﴾ترجمہ:فرمان باری تعالیٰ ہے:اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں،بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابرہے۔      (2)اگرچہ بہنیں اپنے حصے کا مطالبہ نہ کریں ، تب بھی ان کا شرعی حصہ دینا ضروری ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے  شریعت میں  ان کا حصہ مقرر کیا ہے ، لہذا حکم ِ شریعت کے  خلاف ایسے رسم و رواج پرعمل حرام ہے:”اِرث (یعنی وارث ہونا)جبری (لازمی)ہے کہ موت ِمورث پر ہروارث خواہ مخواہ اپنے حصہ شرعی کامالک ہوتاہے مانگے خواہ نہ مانگے، لے یانہ لے، دینے کاعرف ہویانہ ہو اگرچہ کتنی ہی مدت ترک کوگزر جائے؛ کتنے ہی اشتراک دراشتراک کی نوبت آئے ؛ اصلاکوئی بات میراث ِثابت کوساقط نہ کرے گی؛ نہ کوئی عرف فرائض اﷲ کوتغیرکرسکتاہے، یہاں تک کہ نہ مانگنا درکنار اگر وارث صراحۃکہہ دے کہ میں نے اپناحصہ چھوڑ دیا ، جب بھی اس کی ملک زائل نہ ہوگی۔“      (3)میراث اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا حق ہے ، لہذا اگر کوئی بہن یہ کہہ دے کہ میں نے اپنا حصہ نہیں لینا ، تو بھی اس کا حصہ ساقط نہیں ہوگا۔علامہ ابن نجیم مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں :” لو قال الوارث تركت حقی لم يبطل حقه اذ الملك لا يبطل بالترك “ترجمہ :اگروارث نے کہا کہ میں نے  اپناحق چھوڑدیاہے ، تو اس کاحق باطل نہیں ہوگا ، کیونکہ ملک چھوڑدینے سے باطل نہیں ہوتی۔(الاشباہ والنظائر ، الفن الثالث ، ج1 ، ص 272 ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت اس کے تحت غمزالعیون میں ہے : ” اعلم ان الاعراض عن الملك او حق الملك ضابطه انه ان كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال احدهما تركت نصيبی من الميراث لم يبطل لانه لازم لا يترك بالترك“ترجمہ : جان لوکہ ملکیت یا حق ِ ملکیت سے اعراض کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر ملکیت لازم ہو تو وہ اِعراض کرنے سے باطل نہیں ہو گی ۔ جیسے اگرکوئی شخص دوبیٹے چھوڑکرفوت ہوا اوران میں سے ایک نے کہا کہ میں نے میراث میں سے اپناحصہ چھوڑدیا ، تو اس کاحصہ باطل نہیں ہوگا، کیونکہ یہ ایسا لازم حق ہے ، جوچھوڑدینے سے ترک نہیں ہوتا ۔(غمز العیون ، ج3 ، ص 354 ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت ”میراث حقِ مقرر فرمودہ ِرب العزۃ جل وعلا ہے ، جو خود لینے والے کے اسقاط سے ساقط نہیں ہوسکتا بلکہ جبرا (لازمی)دلایا جائے گا اگرچہ وہ لاکھ کہتا رہے مجھے اپنی وراثت  منظور نہیں؛ میں حصہ کا مالک نہیں بنتا؛ میں نے اپنا حق ساقط کیا ، پھردوسرا کیونکر ساقط کرسکتا ہے؟“      (4)اگر بغیر کسی کے مجبور کیے اپنی خوشی سے کوئی بہن ہبہ کرنا چاہے ، تو اپنے حصے میں سے جس جس کو جتنا مال ہبہ کرنا چاہے ،ان میں تقسیم کرنے کے بعد اس حصے کی تعیین کر کے مکمل قبضہ دلا دے ، تو یہ ہبہ درست ہو جائے گا کہ اپنی شے دوسرے کو تحفہ دینے کا اختیار ہونا ، تو ملکیت کی دلیل و علامت ہے ، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ہمیشہ بہنیں ہی بھائیوں کو وراثت کی چیزیں ہبہ کرتی ہیں، کبھی الٹ بھی ہونا چاہیے کہ بھائی بھی اپنی وراثت کا حصہ بہنوں کو تحفہ دیدیں ۔ ہمیشہ بہنوں ہی کا بھائیوں کو تحفہ دینا اُسی رسم و رواج کی طرف اشارہ ہوتا ہے، اگرچہ بغیر مجبوری کے تحفہ دے دینا جائز ہے۔      ہبہ کی شرائط بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤالدین محمد بن علی حصکفی ( المتوفی1088ھ) فرماتے  ہیں:”شرائط صحتھا فی الموھوب ان یکون مقبوضا غیر مشاع ممیزا غیر مشغول“ترجمہ : ہبہ کے صحیح ہونے کے لیے موہوب میں یہ شرط ہے کہ موہوب پر قبضہ کرلیاگیاہو، موہوب مشاع (مخلوط ملکیت)نہ ہو، ممیز وجداہو ،(موہوب لہ کے علاوہ کسی کی ملک میں)مشغول نہ ہو ہبہ کے طریقے کے متعلق مفتی ارشاد فرماتے ہیں:”تمامی ہبہ کے لیے واہب کا موہوب لہ کوشے موہوب پرقبضہ کاملہ دلانا شرط ہے ۔ قبضہ کاملہ کے یہ معنی کہ وہ جائداد یا تو وقت ہبہ ہی مشاع نہ ہو (یعنی کسی اور شخص کی ملک سے مخلوط نہ ہو۔۔) اور واہب اس تمام کو موہوب لہ کے قبضہ میں دے دے یا مشاع ہو ، تو اس قابل نہ ہو کہ اسے دوسرے کی ملک سے جدا ممتاز کرلیں ، تو قابلِ انتفاع رہے ۔ جیسے ایک چھوٹی سی دکان دو شخصوں میں مشترک کہ آدھی الگ کرتے ہیں ، تو بیکار ہوئی جاتی ہے ، ایسی چیز کا بلا تقسیم قبضہ دلادینا بھی کافی وکامل سمجھا جاتاہے یا مشاع قابل تقسیم بھی ہو ، تو واہب اپنی زندگی میں جدا ومنقسم کرکے قبضہ دے دے کہ اب مشاع نہ رہی۔ یہ تینوں صورتیں قبضہ کاملہ کی ہیں۔“      (5)اگر کسی بہن نے کچھ مال اپنے سگے بھائی کوہبہ کر دیا ، تو اسے واپس نہیں لے سکتی،کیونکہ قرابت رجوع سے مانع ہے ،لیکن یہ اسی صورت میں ہے ، جب شرعی تقاضوں کے مطابق ہبہ تام ہو چکا ہو۔      ہبہ سے رجوع کرنے کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:”لا یرجع فی الھبۃ من المحارم بالقرابۃ کالاباء والامھات ۔۔ وکذلک الاخوۃ والاخوات“ترجمہ:(ذی رحم )محارم والی قرابت جیسے ماں باپ بھائی بہن وغیرہ میں سے کسی کو ہبہ کرنے کے بعد رجوع نہیں کیا جا سکتا۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الھبۃ،ج4،ص387،مطبوعہ کوئٹہ)

Category

Show more

Comments - 0